Thursday, July 9, 2009

آگرکبھی میری یاد آئے،،،،،،،،،،،امجد اسلام امجد

اگرکبھی میری یاد آئے
توچاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگروہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا
وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگرنہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگرکبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہواکی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگرگلابوں میں اوس قطروں میں خوشبؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تواپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گردہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بکھرگیا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریامیں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفرکروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پر رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفرپہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا

2 comments:

  1. سر آپ کو اردو محفل پہ مشاعرہ کے لئے دعوتِ کلام دی جا چکی ہے۔ برائے مہربانی اپنے کلام سے نوازیں۔
    آپ کا کوئی رابطہ نمبر نہیں مل رہا تھا، لہٰذا بلاگ پہ کمنٹ چھوڑ رہا ہے۔
    والسلام
    محمد بلال اعظم

    ReplyDelete
  2. شعیبی صاحب،

    اردو محفل پر بھی تشریف لائیے مشاعرے میں آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔

    ReplyDelete