Thursday, July 9, 2009

عزیز اتناہی رکھو کہ جی ،،،،،عبیداللہ علیم

عزیز اتناہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدربھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمی انفاس سے پگھل جائے

محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکاسا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
رہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشاوہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

میں وہ چراغ سررہگزردنیاہوں
جواپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے

ہر ایک لحظہ یہی آرزویہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے

No comments:

Post a Comment