Tuesday, July 7, 2009

گرمجھے اس کایقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست،،،،،،،،،،،،،فیض احمد فیض

گرمجھے اس کا یقین ہو مرے ہمدم مرے دوست
گرمجھے اس کا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی ترے سینے کی جلن
میری دلجوئی مرے پیارسے مٹ جائے گی
گرمراحرف تسلی وہ دواہوجس سے
جی اٹھے پھرتیرااجڑاہوابے نوردماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمارجوانی کو شفاہوجائے
روزوشب شام و سحر میں تجھے بہلاتارہوں
میں تجھے گیت سناتارہوں ہلکے شیریں
آبشاروں کے بہاروں کے چمن زاروں کے گیت
آمد صبح کے مہتاب کے سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرورحسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یکلخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادہ احمرسے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لیے جھکتی ہے خودشاخ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یوں ہی گاتارہوں گاتارہوں تیری خاطر
گیت بنتارہوں بیٹھارہوں تیری خاطر
پرمرے گیت ترے دکھ کا مداواتونہیں
نغمہ جراح نہیں مونس و غمخوارسہی
گیت نشترتونہیں مرہم آزار سہی
تیرے آزارکاچارہ نہیں نشترکے سوا
اوریہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا تیرے سوا تیرے سوا

No comments:

Post a Comment